Islahih_writer

Add To collaction

بانسری کی آواز سن کر بچے اپنے گھروں سے نکل آئے

بہت دنوں کے بعد گاؤ ں میں بانسری بجنے کی آواز سنائی دی ۔ آواز سن کر کالم نگاربھی گھر سے نکلا ، ساتھ میں بچے بھی نکلے ، پھر بچے آتے گئے ۔ کچھ خرید رہے تھے ، کچھ بس دیکھ رہے تھے ، کچھ گھر کی طرف  بھاگ رہے تھے ، دوڑ کر پیسہ لینے جارہے تھے ۔ اپنےبھائی ، باپ ، دادا،یا چچا کی انگلیاں تھامے راہ چلتے بچے  رک گئے تھے ۔ وہ  اپنے بڑوں کو ’پٹا ‘رہے تھے ، بانسری یا غبارہ خریدنے پر آمادہ کررہے تھے۔  ایک نے کہا کہ مجھے پپہری چاہئے ، دوسرے نے کہا کہ مجھے غبارہ چاہئے۔  دیکھتے ہی دیکھتے غبارے والے کے گردبچے جمع ہوگئے ۔ وہ  بانس سے بنا ہو ااسٹینڈ لئے ہوئے تھا ، اس پر رنگ برنگ غبارے سجے  تھے۔ درمیان میں دیسی بانسریاں تھیں جسے پوروانچل کے دیہات میں ’پپہری‘کہا جاتا ہے۔  
لکڑی کے اسٹینڈ کے نیچے  بچے کھڑے تھے ، ان کی تعداد بڑھتی ہی جارہی تھی، وہ مسلسل آجا رہے تھے ۔ وہ ایک ہاتھ سے غبار ہ یا  بانسری دے رہاتھا،دوسرے ہاتھ سے پمپ کی مدد سے غبارے پھلا رہاتھا ، انہیں اسٹینڈ پر سجا بھی رہاتھا   ۔   بچے غبارہ لینے کے بعد پہلے اسے نوٹ یا سکہ دکھاتے ، پھر اس   کے مخصوص اشارے کے بعد اس کے جھولے میں  ڈال دیتے تھے ۔ یہ سلسلہ کچھ دیر تک چلا ،  اس دوران غبارے والےکو دم لینے کی فرصت نہیں ملی ۔ بھیڑ کم ہوئی ، وہ خالی ہو گیا ، اپنے جھولے سے پرانا چاقو نکال لیا ، نرکٹ ( بانس نما لکڑی)کوتراشنے لگا ، اس میں سوراخ بنانے لگا ۔ اسی دوران کالم نگار  نےغبارے والے سے سوالات کئے ، نام گاؤں پوچھا ۔ اس نے ہاتھ نہیں روکا ، بس ایک بار نظر اٹھا کر دیکھ لیا  ۔ سب سے پہلے اپنا  نام  ایوب بتایا۔ پوچھے بغیر ذات بھی بتادی ، کہنے لگا :’’ میں رحمانی شیخ ہوں  ۔‘‘اس کا کہنا ہے کہ اس کے باپ داد ا کا یہی پیشہ تھا۔ اسی طرح وہ گاؤں گاؤں گھوم کر غبارہ اور پپہری بیچتے تھے۔ اسی سے گھر چلتا تھا ، دو وقت کی روٹی کا انتظام ہوتا تھا ۔ ایو ب نے بتایا کہ   ۲۰۰۴ء میں وہ پہلی مرتبہ بانسری اور غبارہ بیچنے نکلا تھا۔  اس کے بعد سے یہ اس کا معمول بن گیا ہے ۔ کوئی چھٹی نہیں  لیتا ہے ،بارش  میں بھی گھر سے نکلتا ہے ۔ زیادہ بارش ہونے لگتی ہے ، راستے میں رک جاتا ہے ۔ بر سات  کے موسم میں دن بھرمیں کئی بار بھیگتا اور سوکھتا ہے ۔ گرمی میں رک رک کر ہینڈ پمپ سے  پیاس بجھاتا  ہے۔
ایوب کو پپہری بنانے کی باضابطہ ٹریننگ نہیں دی گئی ۔ کسی نے بٹھا کر  سکھا یا نہیں ۔ اس  نے بتایا:’’ میں نے اپنے دادا کودیکھا نہیں  ہے، میرے ابو ہی میرے استاد ہیں۔ ابو پپہر ی بناتے تھے ۔ میں انہیں بچپن سے دیکھتا تھا ، ان کے جانے کے بعد چاقو لے کر بیٹھ جاتا تھا، نرکٹ کو جہاں تہاں سے کاٹتا تھا ، اس میں ہاتھ بھی کٹتا تھا۔ کبھی کبھی خون بھی   نکلتا تھا ، اس طرح  مہینوں کی محنت کے بعد   پپہری بنانا سیکھ گیا تھا ۔‘‘
ایوب بتاتے ہیں:’’جب ۲۰۰۴ء میں میں نے بانسری بنانا شروع  کیا تو ایک بانسری پچاس پیسے کی تھی۔ اب دس روپے کی ہے ۔ تین چار سور روپے روزانہ کمائی ہوجاتی ہے ۔ میرا گھر دیو گاؤں(اعظم گڑھ)  میں ہے ، ہفتے میں دو تین مرتبہ گھر جاتاہوں ، سرائے میر میں جاوید ٹینٹ والے کے ہاں رہتا ہوں،  ہوٹل پر کھانا کھاتا ہوں ،گاؤں گاؤں گھومتا ہو ں، زیادہ  بھوک لگتی ہے ،کچھ  لوگ گھر بلا کر کھلا بھی دیتے ہیں۔ ‘‘
اس دن  کے سفر کی رودادایوب کی زبانی سنئے : ’’ میں صبح ۶؍ بجےچائے وائے پی کر سرائے میر سے نکلا  تھا ،ایک جھولے میں غبارہ تھا ، بنی ہوئی پپہری تھی ، ہاتھ میں لکڑی کا اسٹینڈ  تھا ۔  یہ سب  لے کر پیدل یہاں آیا  ،منجیرپٹی گاؤں کی مسجد کے قریب ایک  چبوترے پر بیٹھ کر غبارہ پھلایا  ، پھر   اسٹینڈ پر غبارہ اور پہپری  سجا کر گاؤں کی گلی گلی میں گھوم رہا ہوں  ۔‘‘ ایوب بتاتے ہیں کہ پپہری پکے نرکٹ  ہی سے بنتی ہے، یہ بانس کی طرح کھوکھلا ہوتا ہے ، چاقوسے تراش کر اس  میں سوراخ بنایاجاتا ہے ،پھر اس پر اس سے تھوڑا موٹا نرکٹ ہی کا  ایک ٹکڑا چڑھایا جاتا ہے۔ یہ روایتی بانسری ہے۔  نرکٹ کی بوائی نہیں کی جاتی ہے ، خود سے اگتا ہے ۔ ایوب اسے گاؤ ں گاؤں سے ڈھونڈ کر لاتے ہیں۔  اپنے گاؤں سے نرکٹ  سرائے میر لے کر آتے ہیں ، وہیں بیٹھ کر اسے تیار کرتے ہیں۔  پھرگاؤں گاؤں بیچنے لے جاتے ہیں۔
ایوب نے جاتے جاتے پوچھ لیا :’’ کاہیں پوچھا تھے،ہمین کچھ ملی ، ہمرو کونو فائدہ ہووئی۔‘‘ ( کیوںپوچھ رہےہیں ؟ مجھے کچھ ملے گا؟ ہمار اکیافائدہ ہوگا؟) اس پر میں خاموش رہا ۔  پھر اس نے کہا :’’ کاتو سبھن  ای بتہیاکی ہم بہت گریب ہین؟‘‘( کیا آپ سب کو بتائیں گے کہ ہم بہت غریب ہیں) اس  پر کالم نگار کا جواب تھا :’ ’ نہیں میں یہ بتاؤں گا کہ آپ ایک فن کار ہیں، کلاکار ہیں ، محنت کرتےہیں ، گاؤں گاؤں گھومتے ہیں ، چار پیسے کیلئے کئی کئی کلومیٹر پیدل چلتےہیں، دھوپ میں بھی جلتے ہیں ۔‘‘
  یہ سن کر وہ مسکرایا ، اسے حوصلہ ملا ۔  ایوب نے بتایا :’’میں اعظم گڑھ ہی نہیں ، مئو محمد آباد اور مبارکپور بھی جاتا ہوں ، وہاں کے گاؤں  گاؤں میں پیدل گھومتا ہوں ِ۔  دس سال پہلے کا قصہ ہے ۔ ایک بار میں ایک سنسان سڑک سے گزر رہا تھا ،  ایک پیکّڑ(شرابی) مل گیا، غبارہ اوربانسری نوچنے لگا ، میں نے تھوڑی مخالفت کی، و ہ قریب آیا، اس کے منہ سے بھبکا آیا ۔ میں سمجھ گیا، آگے بڑھ گیا  ۔ پھر میری زندگی میں ایسے ہی کتنے لوگ آئے ؟ راہ چلتے پریشان کیا ، کچھ شرارتی بچوں نے دھمکا کرغبارہ چھین لیا ۔ اب اس کی عادت ہوگئی ہے۔ پیٹ پوجا کیلئے یہ سب برداشت کرلیتے ہیں۔چلئے اب بینا پارہ جائیں گے ،پھر وہیں سےسکرور جائیں گے ، سورج ڈوبنے سے پہلےاپنے ٹھکانے سرائے میر پہنچ جائیں گے۔‘‘ایوب بانسری بجاتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔

   9
5 Comments

Simran Bhagat

28-Mar-2022 08:46 PM

Wahahah

Reply

Dr. SAGHEER AHMAD SIDDIQUI

28-Mar-2022 04:15 PM

Wah

Reply

Mchoudhary

28-Mar-2022 03:16 PM

Arey waah 😅

Reply